دنیائے انسانیت میں اسلام کا ہمہ گیر انقلاب

 

محمد اللہ خلیلی قاسمی

 

تاریخِ انسانی میں اسلام سراپا انقلاب ثابت ہوا ہے۔ اسلام نے انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں تاریخ ساز تبدیلی پیدا کی ہے۔ اسلام نے دنیا کے مذہبی و سیاسی، علمی و فکری اور اخلاقی و معاشرتی حلقوں میں نہایت پاکیزہ اور دوررس انقلاب کی قیادت کی ہے۔ زندگی کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جہاں تک آفتابِ اسلامی کی کرنیں نہ پہنچی ہوں۔ قافلۂ انسانیت، اسلام کی آمد سے پہلے ایک بھیانک اور تباہ کن رخ کی طرف محوِ سفر تھا۔ مجموعی طور پر پوری دنیا کی مذہبی، اخلاقی، معاشرتی، سیاسی اور علمی حالت نہایت ابتر تھی۔ اسلام کی دل گیر صداؤں نے اسے ایک روح پرور، حیات بخش اور امن آفریں منزل کی طرف رواں دواں کردیا۔ کرۂ ارضی مذہبی بے راہ روی، اخلاقی انارکی، سیاسی پستی، طبقاتی کشمکش، علمی و فکری تنزلی اور معاشرتی لاقانونیت کے اس آخری نقطے پر پہنچ چکا تھا جس کے آگے سراسر ہلاکت، شر و فساد اور ہمہ گیر تباہی کی حکم رانی تھی۔ اسلام نے دنیا کو اس مہیب صورتِ حال سے نکال کر سرخ روئی اور سرفرازی عطا کی۔

          اسلام سے پہلے اور بعد کی عالمی تاریخ کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو بہت واضح طور پر محسوس ہوگا کہ اسلام کا ظہور تاریخ عالم کا سب سے زیادہ صالح انقلاب ثابت ہوا ہے۔ یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ اس عالمِ رنگ و بو میں بپا ہونے والا ہر انقلاب اسلامی انقلاب کا براہِ راست یا بالواسطہ نتیجہ ہے۔ اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد کی انسانی دنیا بالکل مختلف ہے۔ زمانے کے ان دونوں ادوار کے مابین اسلام ایک واضح نشان امتیاز محسوس ہوتا ہے۔ اسلام کے بعد کی دنیا میں انسانی زندگی کا ہر پہلو خوشگوار اسلامی انقلاب کی بادِ بہاری سے مہک اٹھا ہے۔ خواہ وہ مذہبی و سیاسی پہلو ہو یا اخلاقی و معاشرتی ہو یا علمی و سائنسی ۔ قرآن کریم نے اپنے بلیغ اور جامع پیرائے میں اس کو  من الظلمات الی النور (تاریکی سے روشنی کی طرف سے) سے تعبیر کیا ہے۔ (دیکھیے سورۃ البقرۃ۲۵۷:۱، سورۃ المائدۃ ۱۶:۵ ، سورۃ ابراہیم ۱:۱۴، سورۃ الحدید ۹: ۵۷)

          آج ہم جس تاریخ کو پڑھتے ہیں وہ عموماً مغربی مؤرخوں اور مصنفوں کے خیالات اور اصطلاحات پر مشتمل ہوتی ہے۔ یورپ جس کی ذہنی ترقی اور علمی و فکری بلندی کی تاریخ مسلمانوں کے زیر اثر چند سو سال پہلے شروع ہوئی اور جس کا نقطۂ آغاز انقلابِ فرانس یا اقتصادی انقلاب کہا جاسکتا ہے۔ اس سے قبل کی تاریخ کو اہل یورپ تاریک دور (Dark Age)  یا  ازمنۂ وسطی (Middle Ages) سے یاد کرتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی آمد سے قبل یہ تاریکی عالم گیر تھی، لیکن ساتویں صدی کی ابتداء میں جب جزیرہ نمائے عرب میں آفتابِ اسلام طلوع ہوا ، اس کی روشنی (صرف ساتویں صدی) کے اخیر تک ایشیا و افریقہ کے ایک بڑے حصے کو منور کرچکی تھی۔ یہ تاریکی صرف یورپ میں چھائی ہوئی تھی اور مسلم اسپین و قبرص و سسلی کے استثناء کے ساتھ یہ تاریکی وہاں مسلسل بعد کی کئی صدیوں تک چھائی رہی ۔ عین اس وقت جب یورپ تاریک دور کی اندھیریوں میں گم تھا، اسلامی تہذیب و تمدن کا آفتاب نصف النہار پر تھا اور وہ زمانہ تاریخِ عالم کی مذہبی، سیاسی، علمی و فکری تاریخ کا روشن ترین زمانہ تھا۔ مشہور مغربی مفکر برٹرینڈ رسل (Bertrand Russel) نے لکھا ہے کہ 699عیسوی سے 1000عیسوی تک کے زمانے کو تاریک دور کہنے کی ہماری اصطلاح مغربی یورپ پر ناجائز ترکیز کی علامت ہے۔ اس وقت ہندوستان سے اسپین تک اسلام کی شاندار تہذیب پھیلی ہوئی تھی۔ اس وقت عالمِ عیسائیت کو جو کچھ دستیاب نہیں تھا وہ اس تہذیب کو دستیاب تھا۔ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ مغربی یورپ کی تہذیب ہی تہذیب ہے، لیکن یہ ایک تنگ خیال ہے۔ (History of Western Philosophy,’ London, 1948, p. 419)

اسلام کا مذہبی وروحانی انقلاب

          ظہورِ اسلام سے قبل دنیا کی مذہبی حالت نہایت خستہ تھی۔ عرب اس وقت کی آباد دنیا کے وسط میں واقع تھا۔ وہاں کفر و شرک اور جہالت و لاقانونیت کا دور دورہ تھا۔ قتل و غارت گری، ظلم و ناانصافی کا راج تھا ۔ عرب میں ایک دو نہیں، ہزاروں بت تھے۔ صرف خانۂ کعبہ میں ۳۶۰ بت تھے اور ہر ہر گھر کا بت الگ تھا، یہی نہیں؛ بلکہ معبودوں کی فہرست میں جنوں، فرشتوں اور ستاروں کا بھی نام تھا۔ کہیں کہیں آفتاب پرستی بھی رائج تھی۔

روم و ایران اس وقت دنیا کی دو سُپر طاقتیں تھیں اور آباددنیا کے نصف سے زیادہ حصے پر ان کی حکومت تھی؛ لیکن وہاں اخلاق و مروت، عدل و انصاف کا نام و نشان نہ تھا۔ روم اپنی قدیم یونانی علمی و مادی ترقیات کے باوجود انتہائی ذلت و پستی میں پہنچ چکا تھا۔ ایران میں آتش کدے روشن تھے، جن کے آگے سرِ نیاز خم کیے جاتے تھے۔ پوری انسانی سوسائٹی طرح طرح کی مذہبی و اخلاقی خرابیوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ہندوستان میں بھی ابتری پھیلی ہوئی تھی۔ تمام ملک میں بت پرستی کا زور تھا۔ ستاروں، پہاڑوں، دریاؤں، درختوں ، حیوانوں پتھروں اور حتی کہ شرم گاہوں کی بھی پرستش کی جاتی تھی۔

          یہودی قوم حضرت موسی علیہ السلام کی اصل تعلیمات بھول کر دنیا کے مختلف خطوں اور گوشوں میں ذلت کے ساتھ در در کی ٹھوکریں کھارہی تھی، خود عیسائی بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی اصل دعوت اور پیغام کو چھوڑ کر انھیں خدا کا بیٹا مان چکے تھے۔ وہ انجیل میں تحریف کرچکے تھے اور سینٹ پال پولس کی پیش کردہ عیسائیت کے پیروکار ہوچلے تھے۔ بدھ ازم چند سو سال کی آب و تاب کے بعد تیزی سے رو بزوال تھا۔ بدھ مذہب کے پیشوا خانقاہوں میں تیاگی بن کر بیٹھ گئے تھے۔ گوتم بدھ جو شرک کے خلاف مشن لے کر آئے تھے، ان کے ماننے والوں نے خود انھیں کو خدا بناکر ان کی پوجا شروع کردی تھی۔

          غرض ساتویں صدی عیسوی تک روئے زمین پر ایسی کوئی قوم نہیں تھی جو مزاج کے اعتبار سے صالح کہی جا سکے۔ نہ کوئی ایسا دین تھا جو انبیائے کرام علیہم السلام کی طرف صحیح نسبت رکھتا ہو۔ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کہیں کہیں عبادت گاہوں میں اگر کبھی کبھی کچھ روشنی نظر آجاتی تھی، تو اس کی حیثیت ایسی ہی تھی جیسے برسات کی شب دیجور میں جگنو چمکتا ہے۔ صحیح علم اتنا نایاب اور خدا کا سیدھا راستہ بتانے والے اتنے خال خال تھے کہ ایران کے بلند ہمت اور بے چین طبیعت نوجوان سلمان فارسی (رضی اللہ عنہ) کو ایران سے لے کر شام تک کے اپنے طویل سفر میں صرف چار راہب ایسے مل سکے، جن سے ان کی روح کو سکون اور قلب کوذرا اطمینان حاصل ہوا؛غرض یہ کہ دنیا مذہبی کشاکش سے دو چار تھی اور انسانیت کی کشتی مسائل کے گرداب میں چکر کھارہی تھی۔ کوئی ایسا باہمت شناور نہ دکھائی دیتا تھا جو اسے موجوں کے تلاطم سے بچا کر ساحلِ مراد تک پہنچاسکے۔ مایوسی کے اس عالم گیر سناٹے میں صحرائے عرب سے ایک صدا بلند ہوئی:

          یَا اَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَکُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَبِّکُمْ فَآَمِنُوْا خَیْرًا لَکُمْ وَاِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ لِلہِ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَکَانَ اللہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا (سورۃ النساء 170:4)

          ترجمہ:  اے لوگو! یہ رسول تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے حق لے کر آگئے ہیں ، اب (ان پر )ایمان لے آؤ کہ تمہاری بہتری اسی میں ہے۔ اگر (اب بھی) تم نے کفر کی راہ اپنائی تو (خوب سمجھ لو کہ ) تمام آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ ہی کا ہے اور اللہ علم اور حکمت دونوں کا مالک ہے۔ (سورۃ النساء ۱۷۰)

اسلام کی اشاعت

          پھر کیا تھا؟ سسکتی ہوئی انسانیت کی ڈھارس بندھ گئی، تشنہ کاموں کی سیرابی کا انتظام ہوگیا اور حق کے طالب اور سلیم روحیں قرآن کی اس آواز پر لبیک کہنے لگیں۔ ہزار مخالفتوں اور رکاوٹ کے باوجود اسلام کی تسخیری قوت نے عمل کرنا شروع کیا اور اسلام کے نام لیواؤں کی تعداد روز بروز بڑھتی گئی؛ تا آں کہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال تک صرف تیئس سال میں اسلام پورے جزیرۃ العرب میں پھیل چکا تھا ۔ خلافتِ راشدہ کے تیس برسوں میں اسلام جزیرۃ العرب سے نکل کر شام و مصر اور ایران و عراق سے گزرتا ہوا شمالی افریقہ اور وسطی ایشیا کے علاقوں تک پھیل گیا۔ خلافتِ بنی امیہ کے ابتدائی چند عشروں میں اسلام پورے شمالی افریقہ سے ہوتا ہوا یورپ کے مختلف علاقوں جیسے سسلی، قبرص اور خصوصاً اسپین تک پہنچ چکا تھا اور مشرق میں وسط ایشیا سے ہوتا ہوا سندھ اور ہندوستان میں بھی داخل ہوچکا تھا۔ ایک صدی سے کم عرصہ میں اسلام ایک عالمگیر مذہب بن گیا۔ ایک مستشرق کے الفاظ میں: انسان کی پوری لمبی تاریخ میں اس سے زیادہ تعجب خیز شاید کوئی اور واقعہ نہیں جتنا کہ غیر معمولی تیز رفتاری کے ساتھ اسلام کا پھیلاؤ۔ کون اندازہ کرسکتا تھا کہ وہ پیغمبرِ اسلام جنھیں ۶۲۲ء میں ان کے وطن سے نکال دیا تھا اور وہ ایک اجنبی شہر میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے، ایک ایسے مذہب کی بنیاد رکھیں گے جو ایک صدی کے اندر مغرب میں فرانس کے قلب تک پہنچ جائے گا اور مشرق میں دریائے سندھ کو عبور کر کے چین کی آخری حدود تک پہنچ جائے گا؛ یعنی آدھی مہذب دنیا پر۔

          ’اشاعت اسلام ‘کے مقدمے میں حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ لکھتے ہیں: ’’اس (اسلام) کی روحانی تربیت اور اخلاقی اصلاحات نے نہ صرف حلقہ بگوشانِ ادیان سابقہ کو اپنا گرویدہ بنالیا؛ بلکہ ریگستانوں میں بادیہ پیمائی کرنے والوں اور پہاڑوں میں وحشیانہ زندگی بسر کرنے والوں کو اپنا مطیع کرلیا۔ یہی وجہ ہے کہ نہایت تھوڑی سی مدت میں بحرِ اٹلانٹک کے ساحل سے لے کر بحرِ پاسفک کے کناروں تک اور بحرِ منجمد شمالی کے برفستان سے لے کر صحرائے کبیر افریقہ کی انتہائی گرم حدود تک ہزارہا ہزار میل کی مسافت میں اس کا ڈنکا بجنے لگا۔‘‘ (ص ۷)

اسلام کی خصوصیات

          اسلام نے ایک جامع و مکمل نظامِ زندگی اور ابدی دینِ فطرت دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اسلامی عقائد و تعلیمات اور اسلامی نظامِ زندگی سابقہ سماوی ادیان کا جامع تھا۔ اسلام نے سارے مذاہب کی خوبیوں کو اپنے اندر سمولیا اور ان مذاہب میں انسانوں نے جو اضافے یا تبدیلیاں کر لی تھیں ان کو نکال باہر کیا۔ گویا اسلام سماوی مذاہب کا سب سے آخری اور مکمل ایڈیشن تھا، جو سب کی خوبیوں کا مجموعہ تھا۔ قرآنِ عظیم نے اسی کو اس طرح بیان فرمایا ہے:

          الْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (سورۃ المائدۃ ۳:۵)

          ترجمہ:  آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کیا۔ (سورۃ المائدۃ ۳:۵)

          اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَام (سورۃ آل عمران ۱۹:۳)

          ترجمہ : بے شک (معتبر ) دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔ (سورۃ آل عمران ۱۹:۳)

          اسلام نے اپنی تعلیمات کی جامعیت اور اپنے پیغام کی آفاقیت سے یہ ثابت کردکھایا کہ وہ کسی مخصوص وقت اور قوم کی حدود سے ماورا ایک آفاقی اور ابدی پیغام کا حامل ہے۔ اسلام ابتداء ہی سے مختلف رنگ و نسل اور مختلف قوم و وطن کے درمیان عملی شکل میں موجود رہا اور تاریخ کے ہر مرحلے میں اس نے اپنی زندہ تعلیمات اور آفاقی پیغام سے کروڑہا افراد کے عقیدہ و عمل کو متاثر کیا ہے۔

          اسلام نے مذہب کی اساس توحیدِ خالص کی طرف دعوت دے کر مذہب کی دنیا میں انقلاب پیدا کیا۔ اسلام سے قبل کے مذاہب اور تہذیبیں یا تو مکمل طور پر کفر و شرک میں ڈوبی ہوئی تھیں جیسے عرب جاہلیت اور ہندوستان وغیرہ ، یا کم از کم توحید خالص کی روح سے نابلد تھیں جیسے عالمِ عیسائیت جو تثلیث کے عقیدہ میں مبتلا تھا اور حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہتا تھا۔ یا اگر کہیں توحید تھی بھی تو وہ انتہائی محدود جیسے یہودی جو بری طرح بکھراؤ کا شکار تھے۔ اسلام نے توحیدِ خالص کی طرف دعوت دی اور اللہ کی بڑائی کا بول اس بلند آہنگی سے بولا کہ اس وقت سے توحیدِ خالص کی یہ دعوت دنیا کی سب سے بڑی دعوت بن گئی اور اللہ کی بڑائی کا بول پوری قوت کے ساتھ پورے عالم میں جاری ہوگیا۔ اتنے بڑے پیمانے پر اور اس تسلسل اور دوام کے ساتھ توحیدِ خالص کا نظریہ اسلام سے پہلے دنیا میں کبھی رائج نہیں رہا۔ احادیث میں ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان اس بات سے مایوس ہوچکا کہ اس سرزمین پر اس کی پرستش ہوگی۔(دیکھیے: سنن کبری للبیہقی ۴۴۵:۲، مستدرک علی الصحیحین ۳۰۶:۱)

           اسلام کے اس پیغام توحید نے دنیا کی تاریخ بدل کر رکھ دی اور اس نے ایسی مذہبی، سیاسی، علمی و تہذیبی انقلابات کی راہ ہموار کی کہ پچھلی صدیوں میں جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ خالص عقیدۂ توحید سے نہ صرف مذہبی انقلاب برپا ہوا؛ بلکہ اس عقیدہ کی برکت سے انسانی ذہن اوہام و خرافات کی بھول بھلیوں سے نکل کر علوم و فنون کی ایسی وسیع شاہراہ پر آگیا جس کے سامنے تحقیق و دریافت کی ایک عظیم الشان دنیا اس کی منتظر بیٹھی تھی۔

          اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ قرآن کریم جو اسلام کا دستورِ اساسی ہے وہ من و عن محفوظ اور ہر طرح کے شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ اس خصوصیت میں اسلام کا کوئی شریک نہیں۔ دوسری طرف اسلام کی دوسری اساس پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ، آپ کے اقوال و افعال ہیں ، جنھیں اسلام نے اس طور پر محفوظ رکھا ہے کہ دنیا میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ صرف یہی نہیں؛ بلکہ آپ کے اقوال و افعال کی روایت کرنے والے اور تدوین کا فریضہ انجام دینے والے صحابۂ کرام، تابعین و تبع تابعین اور بعد کی صدیوں کے راویوں تک کے تفصیلی حالات بھی محفوظ ہیں۔

          اسلام سے پہلے جو مذاہب رائج ہوئے ، کچھ دنوں کے گزرنے کے بعد ان کے متبعین کی تعداد کم ہوتی گئی یا ان سے لوگوں کی دل چسپی کم ہوتی گئی؛ کیوں کہ وہ مذاہب خاص وقت اور خاص قوم تک محدود تھے ۔ ان میں وہ آفاقیت اور جامعیت نہیں تھی جو اسلام کے حصے میں آئی۔ اسلام مادیت اور روحانیت دونوں کو جمع کرنے والا اور ان دونوں کے درمیان مکمل اعتدال و توازن رکھنے والا مذہب تھا۔ اسلام نے رہبانیت اور جوگ کو مذہب قرار نہیں دیا؛ بلکہ اس نے انسان کی فطری و جبلی نفسیات اور خصوصیات کی رعایت کی اور ایسا جامع نظامِ زندگی پیش کیا جو انسان کی انفرادی و عائلی زندگی سے لے کر اس کی معاشرتی، سیاسی اور معاشی زندگی کے تمام پہلؤوں پر محیط تھا۔

          اسلام نے ایک قلیل عرصہ میں دنیا کی مذہبی حالت میں وہ انقلابِ عظیم پیدا کیا، جس کی مثال نہیں مل سکتی۔دنیا میں بابل، ہندوستان و چین ، مصر و شام ا ور یونان و روم میں بڑے بڑے تمدن پیدا ہوئے، اخلاق و افکار کے بڑے بڑے نظریے قائم ہوئے، تہذیب و شائستگی کے بڑے بڑے اصول وضع کیے گئے، یہ اصول و افکار سیکڑوں سال میں بنے، پھر بھی بگڑ گئے۔ صدیوں میں ان کی تعمیر ہوئی،پھر بھی وہ فنا ہوگئے؛ لیکن اسلام کا تمدن چند برسوں میں تعمیر ہوا اور ایسا بنا کہ آج چودہ سو سال سے تمام روئے زمین پر قائم و دائم ہے ۔

          اسلام کی اشاعت کے سلسلے میں ایک فرسودہ الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے، جب کہ پوری اسلامی تاریخ گواہ ہے مسلمان فاتح اور غالب ہونے کے باوجود تبدیلیٔ مذہب کے سلسلے میں ہمیشہ روادار اور انصاف پسند واقع ہوئے ہیں۔ پوری اسلامی تاریخ میں بالجبر اسلام قبول کرنے کے واقعات معدوم ہیں؛ جب کہ اس کے برخلاف عیسائیوں کو جب بھی مسلمانوں پر غلبہ ہوا، انھوں نے مسلمانوں کو جبریہ عیسائی بنانے یا ان کا صفایا کردینے میں کوئی عار نہیں محسوس کی۔اسپین اور صقلیہ (سسلی) اس کے گواہ ہیں کہ وہ ممالک جہاں مسلمانوں کی صدیوں حکومت قائم رہی، آج وہاں اسلام کا کوئی نام لیوا نہیں۔ اسلام پر عائد کیے جانے والے بے ہودہ الزامات میں یہ بالکل لغو اور فضول الزام ہے۔ انصاف پسند غیر مسلم مؤرخین نے بھی اس حقیقت کا برملا اظہار کیا ہے۔ ایک مستشرق کے بقول : تاریخ سے یہ واضح ہے کہ مفتوح اقوام میں اسلام کی اشاعت تلوار کی نوک پر ہونے کا الزام مؤرخین کے ذریعہ نقل کیا جانے والا انتہائی بے ہودہ اور لغو خیال ہے ۔ (De Lacy O'Leary, Islam at the Crossroads, London, 1923, p.8.)

اسلام روحانی سُپر پاور

          اسلام کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ تاریخ کے ہردور میں ہمیشہ ہی سُپر طاقت ہی ثابت ہوا ہے۔ کبھی تو مسلمانوں کو سیاسی عروج کی بنیاد پر اسلام فاتح اور غالب بن کر رہا اور سیاسی غلبہ کے فقدان کی صورت میں اس نے قلوب پر حکمرانی کی۔ تاریخ میں چند ایسے موڑ بھی آئے ہیں جب لوگوں کو محسوس ہو چلا کہ اسلام اب زوال پذیر ہے اور اس کا چل چلاؤ شروع ہوچکا ہے؛ لیکن تھوڑی ہی مدت میں اچانک کایا پلٹ گئی اور اسلام پھر پوری آب و تاب کے ساتھ رواں دواں ہوگیا۔ پہلی مرتبہ عالمِ اسلام پر اور خصوصاً اس وقت کی سب سے بڑی اسلامی حکومت خلافتِ عباسیہ اور بغداد پر تاتاریوں کی یورش کے موقعہ پر لوگوں کو محسوس ہوا کہ اب اسلام کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ تاتاریوں کے طوفانِ بلا خیز سے اسلامی علوم و فنون کی دھجیاں اڑ گئی تھیں اور تہذیب و تمدن کا چراغ غل ہوگیا تھا؛ لیکن ایسے وقت جب اسلام کی سیاسی طاقت کا ستارۂ اقبال گردش میں تھا، اسلام کی روحانی طاقت قلوب کو مسخر کررہی تھی اور جنھوں نے مسلمانوں کو مفتوح بنا لیا تھا اسلام نے اسی فاتح قوم کے قلوب کو فتح کرنا شروع کیا؛ تا آں کہ وہی تاتاری ایک دن اسلام کے سب سے بڑے محافظ اور پاسبان بن گئے۔

          اسی طرح گذشتہ صدیوں میں جب ہندوستان سے سلطنت مغلیہ اور پھر خلافتِ عثمانیہ کا زوال ہوا ، اور نتیجہ کے طور پر اسلامی ممالک پر یوروپی استعمار کا تسلط ہوا ، اس وقت کچھ لوگوں کو محسوس ہونے لگا کہ اسلام اب شاید زوال پذیر ہے۔ اس وقت بھی مسلمانوں کی سیاسی طاقت یقینا شکست خوردہ اور زوال پذیر تھی؛ لیکن اسلام کی روحانی طاقت اور قوتِ تسخیر نے شکست تسلیم نہیں کیا اور اس نے اہلِ یوروپ و امریکہ کے قلوب کو مسخر کرنا شروع کیا۔ خلافتِ عثمانیہ کے زوال اور اکثر اسلامی ممالک و علاقہ جات پر یورپ کے استعماری قبضہ و تسلط کی وجہ سے گذشتہ انیسویں اور بیسویں صدی کے نصفِ اول میں یہ تصور بھی مشکل تھا کہ مسلمان کبھی امریکہ یا یورپ میں اپنی بستیاں بسائیں گے اور وہاں پورے اسلامی تشخص و امتیازکے ساتھ نہ صرف آباد ہوں گے؛ بلکہ مساجد و اسلامی مراکز بنا کر یورپ و امریکہ کی ترقی یافتہ قوموں کو اپنا مدعوبنائیں گے۔ آج صور تِ حال یہ ہے امریکہ مسلمانوں کی تعدادتقریباً ایک کڑوڑ  اور یورپ میں تقریباً پانچ کڑوڑ ہو رہی ہے۔ اسلام اس وقت امریکہ و یورپ میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔

          اسلام کی تسخیری قوت اور اس کے روحانی طور پر سپر پاور ہونے کا تصورمسلمانوں کا بنایا ہوا کوئی خواب نہیں؛ بلکہ تاریخ اسلام کے مختلف مراحل میں اس کا تجربہ ہوچکا ہے اور ماضی قریب میں بھی ایسے خیالات پائے جاتے رہے ہیں۔ مشہور انگریزی مفکر اور فلسفی جارج برنارڈ شا نے نہایت کھل کر اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:  ’’آئندہ سو برسوں میں اگر کوئی مذہب انگلینڈ؛ بلکہ پورے یورپ پر حکومت کرنے کا موقع پاسکتا ہے تو وہ مذہب ’’اسلام‘‘ ہی ہوسکتا ہے۔ ... میں نے اسلام کو اس کی حیرت انگیز حرکت و نمو کی وجہ سے ہمیشہ قدرکی نگاہ سے دیکھا ہے ۔ یہی صرف ایک ایسا مذہب ہے جو زندگی کے بدلتے ہوئے حالات سے ہم آہنگ ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے، جو اس کو ہر زمانہ میںقابلِ توجہ بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ...میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مذہب کے بارے میں پیشین گوئی کی ہے کہ وہ کل کے یورپ کو قابلِ قبول ہوگا جیسا کہ وہ آج کے یورپ کو قابلِ قبول ہونا شروع ہوگیا ہے۔‘‘(George Bernard Shaw in 'The Genuine Islam,' Vol. 1, No. 8, 1936)

          فرانس کے طالع آزما سکندر زمانہ نپولین بونا پارٹ کا کہنا ہے کہ مجھے امید ہے کہ وہ دن دور نہیں جب میں سارے ممالک کے سمجھدار اور تعلیم یافتہ لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کروں گا اور قرآنی اصولوں کی بنیاد پر متحدہ حکومت قائم کروں گا ۔ قرآن کے یہی اصول ہی صحیح اور سچے ہیں اور یہی اصول انسانیت کو سعادت سے ہم کنار کرسکتے ہیں۔ (Napoleon Bonaparte as Quoted in Cherfils, ‘Bonaparte et Islam’ Paris, France, pp. 105, 125)

          آج بھی مغربی مصنفین اور محققین کی طرف سے ایسے مضامین کثرت سے شائع ہورہے ہیں جس کا عنوان کچھ اس طرح ہوتا ہے: اسلام امریکہ کا اگلا مذہب، مغربی یورپ میں آئندہ ۲۵ برسوں کے اندر مسلمانوں کی اکثریت ہوجائے گی وغیرہ ۔ اہلِ یورپ پر آج یہ خوف چھایا ہواہے کہ ایک صدی کے اندر مسلمان متعدد یورپی ممالک میں نہ صرف بڑھ جائیں گے؛ بلکہ دیگر ہم وطنوں سے آگے نکل جائیں گے۔ اہلِ مغرب کے اسی خوف اور اس کی بنیاد پر عالمِ اسلام کے خلاف اس کی خفیہ یلغار کی وجہ مغربی لٹریچر میں ایک نئے لفظ ـ’اسلاموفوبیا‘ (Islamophobia) کا اضافہ ہوا جس کا مطلب ہے اسلام سے خوف کی نفسیا ت اور اسلام ومسلمانوں کے خلاف تعصب کا اظہار۔

          غرض یہ کہ اسلام کا وجود و ظہور انسانی تاریخ کا سب سے اہم اور قابلِ ذکر واقعہ ہے۔ یہ ایک ایسا نقطئہ انقلاب ہے، جس نے انسانی زندگی کے دھارے کو شر سے خیر کی طرف اور اندھیرے سے روشنی کی طرف پھیر دیا ۔ اسلام کل بھی روحانیت کا سرچشمۂ اعلی تھا اور وہ آج بھی انسان کی بھٹکی ہوئی روح اور اس کے آوارہ ذہن کو ایمان و یقین کی تازگی اور روحانیت کی لذت آگیں حلاوت سے بالیدہ و زندہ بنا سکتا ہے۔

***

---------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 12 ، جلد: 95 ‏، محرم الحرام 1433 ہجری مطابق دسمبر 2011ء